از صد برگ

: پروین شاکر
📗 : صد برگ
📝 : صفحہ – ۲۲۵

چٹان چھوڑ کے شاہیں سرِ نہال آیا
اور عمر بھر کی ریاضت پہ خاک ڈال آیا

سگانِ راہ و طفلانِ شہر کیا کرتے
فقیہہِ وقت تو دستار خود اُچھال آیا

ستارہ پہلے کبھی اس طرح نہ تھا روشن
یہ کون ہاتھ میرے بخت کو اُجال آیا

زمانے نے جسے بے تیشہ کر دیا تھا کبھی
پہاڑ کاٹ کے خود راستہ نکال آیا

یہی نہیں کہ مجھے اس نے تھام رکھا ہے
مرا خیال بھی اس کو کبھی سنبھال آیا

ستارہ داں ! تُو مرا زائچہ دوبارہ دیکھ
ترے کہے میں نہ آیا ، عجیب سال آیا

یہ کس کا سامنا کرنے سے حرف لرزاں ہیں
سُخن شناسوں میں یہ کون باکمال آیا

کفِ گُلاب سے خوشبُو ہی چُن سکا تو بہت
جو میرے گھر میں ہمیشہ ہَوا مثال آیا

کوئی ستارہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا
سفر میں جیسے ہی مجھ کو ترا خیال آیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top