اس بے وفا کا شہر ہے۔۔۔۔۔۔

اشکِ رواں کی نہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو
اُس بے وفا کا شہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو

یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو

لائی ہے اب اُڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رُت کا قہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو

دِل کو ہجومِ نکہتِ مہ سے لہُو کِیے
راتوں کا پِچھلا پہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو

پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہَوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو

آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دُھول
عبرت سرائے دہر ہے ، اور ہم ہیں دوستو

شاعر : مُنیرؔ نیازی
مجموعۂ کلام :
(تیز ہَوا اور تنہا پُھول)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top