بات نکلے گی تو۔۔۔۔۔۔

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بےوجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو
جگمگاتے ہوئے لمحوں سے گریزاں کیوں ہو

انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف

چوڑیوں پر بھی کئی طنز کئے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کَسے جائیں گے

پھر کہیں گے کہ ہنسی میں بھی خفا ہوتی ہیں
اب تو روحی کی نمازیں بھی قضا ہوتی ہیں

لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں مرا ذکر بھی لے آئیں گے

ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے

چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بےوجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

شاعر : کفیل آزر امروہوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top