ترجیحات

” ایک تفریحی بحری جہاز سمندر میں حادثے کا شکار ہو گیا، جہاز پر ایک میاں بیوی کا جوڑا بھی سوار تھا، لائف بوٹ کی طرف جانے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ اس میں صرف ایک شخص کی گنجائش باقی ہے۔
اس وقت اس شخص نے عورت کو اپنے پیچھے دھکیل دیا اور خود لائف بوٹ پر چھلانگ لگا دی۔
خاتون نے ڈوبتے ہوئے جہاز پر کھڑے ہو کر اپنے شوہر سے ایک جملہ کہا۔
یہاں استانی نے توقف کیا اور پوچھا، “آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ کیا بات چلائی تھی؟”
زیادہ تر طلباء نے پرجوش ہو کر جواب دیا، “میں تم سے نفرت کرتی ہوں! میں اب تک اندھی تھی!”
اب استانی نے ایک لڑکے کو دیکھا جو اس تمام تر قصے کے دوران خاموش رہا تھا، استانی نے اسے جواب دینے کے لیے کہا اور اس نے جواب دیا، “استانی صاحبہ، مجھے یقین ہے کہ وہ چیخی ہوگی – “ہمارے بچے کا خیال رکھنا!”
استانی نے حیرانی سے پوچھا کیا تم نے یہ کہانی پہلے سنی ہوئی ہے؟
لڑکے نے سر ہلایا، “نہیں، لیکن یہ بات میری ماں نے میرے والد کو بیماری سے مرنے سے پہلے کہی تھی”۔
استانی نے افسوس کرتے ہوئے کہا، “جواب صحیح ہے”۔
تفریحی بحری جہاز ڈوب گیا، وہ شخص بخیریت گھر پہنچ گیا اور اپنی بیٹی کو تن تنہا ہی پالا۔
اس شخص کی موت کے کئی سال بعد، ان کی بیٹی کو اپنا سامان صاف کرتے ہوئے والد کی ایک ڈائری ملی۔
اس ڈائری سے یہ راز آشکار ہوا کہ ” جب اس کے والدین تفریحی جہاز پر گئے تھے، تو ماں کو پہلے سے ہی ایک لاعلاج بیماری کی تشخیص ہو چکی تھی.
اس نازک لمحے میں، باپ زندہ بچ جانے کے واحد موقع سے فائدہ اٹھا کر بھاگ نکلا۔
اس نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا، “میری کس قدر تمنا تھی کہ تمہارے ساتھ سمندر کی تہہ میں ڈوب مروں، لیکن اپنی بیٹی کی خاطر میں تمہیں ہمیشہ کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں اکیلا رہنے کے لیے چھوڑ آیا ہوں”۔
کہانی ختم ہوئی، کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ ———–
دنیا میں اچھائی اور برائی کا وجود ہے، لیکن ان کے پیچھے بہت سی پچیدگیاں ہیں جن کو سمجھنا مشکل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی صرف سطحی حالات کو دیکھ کر اور دوسروں کو پہلے سمجھے بغیر فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہئے۔
جو لوگ کھانے کا بل ادا کرنا پسند کرتے ہیں، وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ دولت مند ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ دوستی کو پیسے پر ترجیح دیتے ہیں۔
جو لوگ کام میں پہل کرتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ بیوقوف ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ذمہ داری کے تصور کو سمجھتے ہیں۔
جو لوگ جھگڑے کے بعد پہلے معافی مانگتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ غلط ہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔
جو لوگ اکثر آپ کو میسج کرتے ہیں، ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بہتر کام نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ آپ ان کے دل میں بستے ہیں۔
ایک دن ہم سب ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے۔ ہم ہر موضوع اور موقع کے بارے میں گفتگو کو یاد کریں گے۔اور ان خوابوں کو جو ہم نے مل کر دیکھے تھے۔ دن، مہینے، سال گزرتے جائیں گے، یہاں تک کہ یہ رابطے نایاب ہو جائیں گے۔
ایک دن ہمارے بچے ہماری تصویریں دیکھیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں؟
اور ہم پوشیدہ آنسوؤں کے ساتھ مسکرائیں گے کیونکہ ایک مضبوط لفظ دل کو چھو لیتا ہے اور ہم کہیں گے: ” یہ وہی تھے جن کے ساتھ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے تھے “۔

انگریزی ادب سے لی گئی کہانی، یہ کہانی ہمارے معاشرے کی بھی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔
منقول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top