شاعری
رنج فراق یار میں۔۔۔
رَنجِ فراقِ یار میں رُسوا نہِیں ہُوا
اِتنا مَیں چُپ ہُوا کہ تماشا نہِیں ہُوا
اَیسا سفر ہے ، جس میں کوئی ہمسفر نہِیں
رَستہ ہے اِس طرح کا ، جو دیکھا نہِیں ہُوا
مُشکل ہُوا ہے رہنا ہمیں اِس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں یہ اَپنا نہِیں ہُوا
وُہ کام شاہِ شہر سے ، یا شہر سے ہُوا
جو کام بھی ہُوا ہے وُہ اچھا نہِیں ہُوا
مِلنا تھا ایک بار اُسے پِھر کہِیں مُنیرؔ
ایسا مَیں چاہتا تھا پر ایسا نہِیں ہُوا
مُنیرؔ نیازی