رنگ پیرھن کا ، خوشبُو زُلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ھے ، تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو !! اُس چشم و لب کی کچھ کہو ، جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ھے ، نہ میخانے کا نام
پھر نظر میں پُھول مَہکے، دِل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصّور نے لیا ، اُس بزم میں جانے کا نام
محتسب کی خیر ، اُونچا ھے اُسی کے فیض سے
رِند کا ، ساقی کا ، مئے کا ، خُم کا ، پیمانے کا نام
ھم سے کہتے ھیں چمن والے ، غریبانِ چمن !!
تم کوئی اچھا سا رکھ لو ، اپنے ویرانے کا نام
فیض اُن کو ھے تقاضائے وفا ھم سے ، جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ھے ، بیگانے کا نام
فیض احمد فیضؔ