سنواری گئی ہوں میں۔۔۔۔

زخموں سے کہاں، لفظوں سے ماری گئی ھوں میں
جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ھوں میں

مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ھی تُو ملا
ایسے تِری مہک سے سنواری گئی ھوں میں

افسوس مجھ کو اس نے اتارا ھے گور میں
جس کے لیئے فلک سے اُتاری گئی ھوں میں

مجھ کو کیا ھے خاک تو پھر خاک بھی اُڑا
اے عشق تیری راہ میں واری گئی ھوں میں

لو آ گئی ھوں ھجر میں مرنے کے واسطے
اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ھوں میں

میری صداقتوں پہ تمہیں کیوں نہیں یقین
سو بار آگ سے بھی گزاری گئی ھوں میں

تم جانتے نہیں ھو اذیت کے کیف کو
ھجرت کے کرب سے تو گزاری گئی ھوں میں

میں مٹ چکی ھوں اور نمایاں ھوا ھے تُو
مرشد خمار میں یوں خماری گئی ھوں میں

اس وجد میں وجود کہاں ھے مرا وجود
جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ھوں میں

مقتل میں جان دینا تھی پیاروں کے واسطے
میں ھی تھی ان کو جان سے پیاری گئی ھوں میں

یہ قرض عشق میں نے چکانا تھا اس لیئے
شاہینؔ اپنی جان سے واری گئی ھوں میں

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top