قبلہ اول
اقصیٰ کیا ہے؟
ایک مسجد، ایک عبادت گاہ، اور بس!!
اس کے لیے کیا اتنا فساد برپا کرنا؟
صحیح کہا! ایک مسجد ہی تو ہے عام سی….
نہ ظاہری کشش، نہ جدید دور کی چمک دمک۔
لیکن پھر بھی مُسلمان جنونی ہُوۓ جا رہے ہیں۔
اپنا اور اپنے اہل وعیال کا نقصان کر رہے ہیں، اہلِ وطن کو آزمائش میں ڈالا ہُوا ہے اِن کےجذباتی رویے نے….
اسلام تو امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے، پھریہ مُسلمان کیوں صُلح صفائی پر راضی نہیں ہو جاتے؟
یہ بات بھی درست کہی؛ اسلام واقعی امن اور سلامتی کو فروغ دیتا ہے
لیکن بحیثیت مسلمان نا سہی..
ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اس سارے معاملے پر کبھی غور کیا ہے؟
ایک مثال سے اندازہ لگاتے ہیں جیسا کہ:
انسان اشرف المخلوقات ہے جسے اللہ نے کھانے، پینے، سونے، جاگنے کے علاوہ بھی کچھ خصوصیات سے نوازا ہے
جن میں سر فہرست جذبات ہیں، عقل ہے، غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے۔
جس سے وہ صحیح اور غلط کا تعین کرتا ہے۔
انسان کو کھانے کے بعد آرام کے لیے ایک محفوظ پناہ چاہیے ہوتی ہے جہاں وہ بغیر کسی خطرے کے رہ سکے جو اس کی ملکیت ہو، جہاں کسی قسم کا خوف یا پریشانی نہ ہو کہ کوئی آۓ گا اور میری جگہ پر قبضہ کر لے گا۔۔۔
اور بحیثیت انسان ہماری فطرت میں خود غرضی شامل ہے تھوڑی یا کم اس کا تعین آپ کی عادات سے ہوتا ہے
کوئی انسان بھی اپنے گھر کو لے کر بہت ذیادہ جذباتی ہوتا ہے کوئی تیسرا آکر ایک چیز بھی اِدھر سے اُدھر رکھ دے تو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگتا ہے۔۔۔
تو بات کا رُخ کُچھ یوں ہے کہ مسجدِ اقصیٰ بھی مُسلمانوں کے لیے اپنے گھر جیسی ہے بلکہ گھر سے بھی ذیادہ عزیز ہے یہ وہ پہلا قبلہ جسے اللہ نے اپنا گھر کہا تھا جس طرف رُخ کرکے مسلمانوں نے پہلی دفع اپنی سب سے افضل عبادت “نماز” کا آغاز کیا تھا، جو ہمارے انبیاہ کی سر زمین ہے جسے مُسلمانوں کے بہادر سپہ سالار “صلاح الدین ایوبی نے صدیوں پہلے فتح کرکے آزاد کروایا تھا تاکہ کوئی کافر یا منافق دوبارہ مُسلمانوں کے اِس گھر کی طرف نِگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔۔
اور آج صدیوں بعد یہ یہودی پھر سے گھات لگا رپے ہیں، پھر سے مُسلمانوں کو انکے گھروں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں، ہمارے انبیاء کی نشانی کو مسمار کرنا چاہتے ہیں
لیکن شاید یہ اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام بُھول چُکے ہیں کہ کیسے مُسلانوں نے اِن کے آباؤ اجداد کو شکست دی تھی
کیسے اِن کی پچھلی قومیں اِسی چالاکی اواور منافقت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئی تھیں
اور حملہ کرنے سے پہلے شاید یہ اس بات کو بُھول چکے ہیں کہ اقصیٰ کے مکین اور محافظ ایسے مُسلمان ہیں جو آخری سانس تک اِن بُزدل اور مُنافق حملہ آوروں سے لڑنے کو تیار ہیں، جو اپنا گھر، مال، اولاد اور جان ہر چیز کو اقصیٰ کی عزت اور حُرمت پر قربان کرنے کو تیار ہیں
پھر بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ مُسلمان صُلح کر لیں بیچ کا راستہ نکال لیں!
اگر یہی گھات کوئی آپ کے گھر پر لگاۓ اور آپ کو آپکے ہی گھر سے نکالنا چاہے تو کیا آپ مزاحمت نہیں کریں گے؟
اپنے گھر کو یونہی کسی کے بھی حوالے کر دیں گے؟
خود کو اُن مسلمانوں کی جگہ پر رکھ کر سوچیں تو شاید آپ اِس طرح بے حِسی کا مظاہرہ کرنے سے باز آ سکیں۔۔۔
از قلم؛ :#ثانیہ_ظفر