بچھڑا ہے جو اِک بار ،،، تو مِلتے نہیں دیکھا
اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا
اِک بار جِسے چاٹ گئی ، دُھوپ کی خُواہش
پھر شاخ پہ اُس پُھول کو کِھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گِرا ہے تو جڑیں تک نِکل آئِیں
جِس پیڑ کو آندھی میں بھی ہِلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی، لیکن
تِتلی کے پَروں کو کبھی چِھلتے نہیں دیکھا
کِس طرح مِری روح ہَری کر گیا آخر
وُہ زہر جسے جسم میں کِھلتے نہیں دیکھا
(خوشبوؤں کی شاعرہ)
پروینؔ شاکر ¹⁹⁹⁴-¹⁹⁵²
مجموعۂ کلام : (صدِ برگ)