کبھی کبھی۔۔۔۔۔۔

اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی​
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی​

پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح​
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی​

ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا​
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی​

پھر ایک بےپناہ سی شِدت کے واسطے​
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی​

یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا کوئی دل میں ہے​
محسُوس کی نہیں تیری چاہت کبھی کبھی​

یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں​
دُنیا پہ چھا گئی تری صورت کبھی کبھی​

وہ جس کو دیکھ دیکھ کے جی تنگ آ گیا​
اچھی بہت لگی وہی صُورت کبھی کبھی​

سچائی تو ہے یہ کہ زمانے کے حُسن میں​
یاد آئی ہی نہیں تری صُورت کبھی کبھی​

دُنیا کی اور بات ہے، دُنیا تو غیر ہے​
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی​

سارا ہی وقت، سارے جہاں کے لیے عدیم​
اپنے لئے بھی چاہیئے فُرصت کبھی کبھی​

دُوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیم​
اچھی نہیں لگی ہمیں قُربت، کبھی کبھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top