گُنگناتے ہوئے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
اُنگلیاں پھیر کے بالوں میں سُلا دے مجھ کو
جس طرح فالتو گُلدان پڑے رہتے ہیں
اپنے گھر کے کسی کونے میں لگادے مجھ کو
یاد کر کے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہو گی
اِک قِصہ ہوں پُرانا سا ، بُھلا دے مجھ کو
ڈوبتے ڈوبتے آواز تیری سُن جاؤں
آخری بار تو ساحل سے صدا دے مجھ کو
میں تیرے ہجر میں چپ چاپ نہ مر جاؤں کہیں
میں ہوں سکتے میں کبھی آ کے رُلا دے مجھ کو
دیکھ میں ہو گیا بدنام کتابوں کی طرح
میری تشہیر نہ کر اب تو جلا دے مجھ کو
رُوٹھنا تیرا میری جان لئے جاتا ہے
ایسے ناراض نہ ہو ہنس کے دِکھا دے مجھ کو
اور کچھ بھی نہیں مانگا میرے مالک تجھ سے
اُس کی گلیوں میں پڑی خاک بنا دے مجھ کو
لوگ کہتے ہیں کہ یہ عشق نگل جاتا ہے
میں بھی اِس دشت میں آیا ہوں دُعا دے مجھ کو
یہی اوقات ہے میری تیرے جیون میں کہ میں
کوئی کمزور سا لمحہ ہوں بُھلا دے مجھ کو
وصی شاہ۔۔۔