ہر شاخ سر بریدہ۔۔۔۔۔

ہر شاخِ سر بُریدہ نقیبِ بہار تھی
فصلِ خِزاں بھی اب کے بڑی باوقار تھی

ہر سنگِ میل پر تھیں صلیبیں گڑی ہوئی
شاید وہ رہ گذار تری راہ گذار تھی

میں تیری آہٹوں پہ توجّہ نہ کر سکا
میری حیات، وقفِ غمِ انتظار تھی

آخر سُکوں ملا اُسے دشتِ نگاہ میں
وہ آرزو جو دِل میں غریبُ الدیّار تھی

مجھ کو تری قسم، تری خوشبو کے ساتھ ساتھ
میری صَدا بھی دوشِ ہَوا پر سوار تھی

کچھ میں بھی آنسوؤں کی نمائش نہ کر سکا
کچھ آپ کی نظر بھی تغافل شعار تھی

مُدت کے بعد مُجھ کو مِلی اتفاق سے
وہ اِک گھڑی کہ تیری طبیعت پہ بار تھی

یہ حَادثہ ہے میں تِری محفل میں چُپ رہا
حالانکہ وہ فضا بھی بڑی سازگار تھی

وہ جن کے قہقہوں سے لَرزتی تھی زندگی
کہتے ہیں ان کی آنکھ بڑی سوگوار تھی

محسؔن بنا تھا میں بھی مصوّر کبھی ، مگر
ٹیڑھی سی اک لکیر مرا شاہکار تھی

محسن نقوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top