یادیں
ہے کس کا عکس دل کے قریں ، چار سو ہے کون ؟
گرد گماں چھٹے تو کھلے رو برو ہے کون
کس کے بدن کی دھوپ نے لہریں اجال دیں
اے عکس ماہتاب تہہ آب جو ہے کون
کیا جانے سنگ بار ہوا کوۓ یار کی
پیوند کس قبا میں لگے ، بے رفو ہے کون ؟
نوک سناں پہ کیوں نہ سجے اپنی سر کشی
جز شہر یار ،شہر میں اپنا عدو ہے کون
اے مصلحت کی تیز ہوا ، جز غریب شہر
اس شہر ننگ و نام میں بے آبرو ہے کون ؟
پلکوں سے کون چنتا ہے رسوائیوں کی دھول
رسوا ہمارے ساتھ یہاں کو بہ کو ہے کون ؟؟
محسنؔ اب اپنا آپ بھلایا ہے اس طرح
مجھ سے خود اپنے عکس نے پوچھا کہ “تو ہے کون” ؟…!
✍️…محسنؔ نقوی(خَیمۂِ جاں)