Author: Admin

” کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے “

کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہےکہاں ہو تم کہ یہ دل بے قرار آج بھی ہے وہ وادیاں وہ فضائیں کہ ہم ملے تھے جہاںمیری وفا کا وہیں پر مزار آج بھی ہے نا جانے دیکھ کے کیوں اُنکو یہ ہوا احساسکہ میرے دل پہ اُنہیں اختیار آج بھی ہے وہ پیار جس […]

بڑھاپا ایک آرٹ

“بڑھاپے کا آرٹ” صاحبوبوڑھا ہونا بھی ایک آرٹ ہےدن بہ دنجسم کی ختم ہوتی طاقتآنکھوں میں آتا دھندلا پنچہرے پر پڑتی ہوئ بے شمار جھریاںدماغ کی کم ہوتی صلاحیتزیادہ چلنے سے انکاری پاوںاور وزن کو نہ اٹھا سکنے والے بازووں کے درمیاناک دل ہی ہے جو شاید جوان رہتا ہےپر وہ بھی اسی صورت میںجب […]

انتخاب

آہ بن کر دل کے افسانے زباں تک آ گئےآگ بھڑکی تھی کہاں شعلے کہاں تک آ گئے اب تو آ جاؤ کہ رسوا ہو نہ جائے ظرف دلضبط غم کے مرحلے آہ و فغاں تک آ گئے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا محبت کا صلہمیرے غم کے تذکرے ان کی زباں تک […]

“تلاش ” از ممتاز مفتی

صوفیائے کرام اس کے برعکس صوفیائے کرام نے مساوات کو اپنایا۔ وہ جانتے تھے کہ جن لوگوں پر اثر ڈالنا ہے ہمیں ویسا بننا پڑے گا اس حد تک کہ وہ سمجھیں یہ شخص ہم میں سے ہے۔ صوفیائے کرام سینکڑوں میل دور وسط ایشیا سے ہندوستان میں آتے تھے۔ یہاں پہنچ کر پہلے دل […]

کلام عدم

جلدی نہ کر ، حَواس نہ کھو ، بے اَدب نہ بنتَھم تَھم کے ، سانس لے کے ، سَہاروں کے ساتھ پی انسانیت کا ظرف ، کُشادہ ھے بے حسابسب رِند صَالحین ھیں ، سَاروں کے ساتھ پی محدود نہ کر ، مُشربِ رِندی کو اے عدمغیروں کے ساتھ پی ، کبھی یاروں کے […]

دنیا

جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہےمل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالمہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانےکس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے یہ وقت جو تیرا ہے […]

“تم جو ٹہر جائو تو “

(فیض احمد فیض ) فیض احمد فیض تم جو پل کو ٹھہر جاؤ تو یہ لمحے بھیآنے والے لمحوں کی امانت بن جائیںتم جو ٹھہر جاؤ تو یہ رات، مہتابیہ سبزہ، یہ گلاب اور ہم دونوں کے خوابسب کے سب ایسے مبہم ہوں کہ حقیقت ہو جائیںتم ٹھہر جاؤ کہ عنوان کی تفصیر ہو تمتم […]

“من و تو”

(احمد فراز) “مَن و تُو” معاف کر مری مستی خُدائے عز و جلکہ میرے ہاتھ میں ساغر ہے میرے لب پہ غزل کریم ہے تو مری لغزشوں کو پیار سے دیکھرحِیم ہے تو سزا و جزا کی حد سے نکل ہے دوستی تو مجھے اذن میزبانی دےتو آسماں سے اتر اور مری زمین پہ چل […]

“کیا کیجیے “

(قتیل شفائی) حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجےگلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکننظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کووہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو […]

“کچھ بھی نہیں “

(اختر شمار) اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیںمطمئن ایسا ھے وہ جیسے کہ ھوا کچھ بھی نہیں اب تو ھاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ھیںاُس کو کھو کر تو میرے پاس رھا کچھ بھی نہیں کل بچھڑنا ھے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھابھی آغازِ محبت ھے گیا کچھ بھی […]

Back To Top