زمین پر پاوں تھے۔۔۔۔۔

زمین پر پاؤں تھے ،،، قیام آسمان میں تھا
مِری طرح سے وُہ شخص بھی اِمتحان میں تھا

یہ روشنی تھی کہ اُسکا چہرہ دھیان میں تھا
سِتارہ سا اِک چراغ میرے مَکان میں تھا

کہ چاند خود آ کے ایک تارے کا نام پُوچھے
ہجوم سیّار گاں ! یہ کِس کے گُمان میں تھا

مَیں اُسکی آنکھوں کو دیکھتی ہُوں تو سوچتی ہُوں
نظر کا ایسا طلسم ـــــــ کِس داستاں میں تھا

مَیں اُسکی کشتی سے اپنا آنچل ہَٹا کے سمجھی
سفر کا بھی حوصلہ فقط بادبان میں تھا

دُعا کبھی مَیں نے مانگی تھی دونوں وقت مِلتے
یہ زندگی بھر کا جھٹپٹا ،،، کب دھیان میں تھا

جُدائی کا فیصلہ تو پھر بھی ہمارا ہوتا
یہ مان بھی لیں اگر کوئی دَرمیان میں تھا

(خُوشبُوؤں کی شاعرہ)

پروینؔ شاکر ¹⁹⁹⁴-¹⁹⁵²

مجموعۂ کلام : (صدِ برگ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top