پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے
جسے قرار نہ آیا کہیں، بُھلا کے مجھے
جُدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ مِلیں
فریب دو تو ذرا__ سلسلے بڑھا کے مجھے
نشے سے کم تو نہیں_____ یادِ یار کا عالم
کہ لے اڑا ھے کوئی دوش پر ھوا کے مجھے
میں خود کو بُھول چُکا تھا، مگر جہاں والے
اُداس چھوڑ گئے____ آئینہ دِکھا کے مجھے
تمہارے بام سے اب کم نہیں ھے رفعتِ دار
جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اُٹھا کے مجھے
کِھنچی ہُوئی ھے مِرے آنسوؤں میں اِک تصویر
فراز دیکھ رہا ھے وہ__ مُسکرا کے مجھے
احمد فراز