ایک جعلی پیر صاحب کا معمول تھا کہ وہ صرف جمعرات کے دن اپنے مریدوں یا دیگر حاجت مندوں کو تعویذ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ جب فاؤنٹین پین نئے نئے ایجاد ہوئے تو پیر صاحب نے اسے بھی اپنی جملہ کرامات میں شامل کر لیا۔ وہ اس طرح کہ جمعرات کو وہ اپنے قلمدان کی روشنائی پھنکوا کر خالی دوات اپنے سامنے رکھ لیتے تھے۔ البتہ فاؤنٹین پین کو سیاہی سے بھر کر قلمد ان میں سجا لیتے تھے۔ غرض مند لوگ دور دور سے پاپیادہ تعویذ لینے آتے تھے۔ پیر صاحب کی خدمت میں نذرانہ پیش کر کے اپنی حاجت بیان کرتے تھے۔ پیر صاحب تعویذ لکھنے کے لیے فاؤنٹین چین کو دوات میں ڈبوتے تھے۔ اسے خالی پا کر قلم واپس رکھ دیتے تھے اور سرد آہ بھر کر افسوس کرتے تھے۔ ”او ہو آج تو سیاہی ختم ہے۔ خیر اگلی جمعرات کو آنا۔ تعویذ لکھ دوں گا۔ “ دس دس یا ہیں میں کوس سے پیدل آیا ہوا حاجت مند مایوس ہو کر جانے لگتا تو پیر کے چھوڑے ہوئے دلال اسے حضرت پیر و مرشد کے ابر کرم کو جوش میں لانے کی ترکیبیں سمجھاتے۔ حاجت مند از سرنو پیر صاحب کے قدموں میں پہلے سے تین گنا نذرانہ ڈالتا اور گڑ گڑا کر آہ وزاری کرتا کہ اللہ اور رسول کی خاطر میری دستگیری فرمائیے۔ پیر صاحب زچ ہو کر کہتے او ہو آپ لوگ بڑا تنگ کرتے ہیں۔ اچھا خیر اللہ مالک ہے۔ “ وہ کچھ پڑھ کر فاؤنٹین پین پر پھونک مارتے اور پیرو مرشد کی کرامت سے روات میں سیاہی کے بغیر قلم ڈبو کر وہ کھٹ سے تعویذ لکھ دیتے!
قدرت اللہ شہاب
شہاب نامہ صفحہ 269