چِھن گئے تم تو حسینوں کے یہ میلے کیوں ہیں
بُجھ گیا دل تو اُجالے کے یہ ریلے کیوں ہیں
عشق کا کھیل بھی ہے دُوسرے کھیلوں جیسا
مات کا جن میں نہیں حوصلہ کھیلے کیوں ہیں
جب کسی شخص کو تقدیر نے کچھ بھی نہ دیا
آج تک سب اُسی جلاد کے چیلے کیوں ہیں
اے خداوند! ہر انسان کا جینا مرنا
تیری منشا ہے تو پھر اتنے جھمیلے کیوں ہیں
اپنے کاندھوں پہ جنازے لیے اپنے اپنے
ہم کروڑوں ہیں مگر پھر بھی اکیلے کیوں ہیں
پا بہ زنجیر سہی چیخ تو سر کر دیتے
ہم نے دُکھ اتنے کڑے صبر سے جھیلے کیوں ہیں
احمد ندیم قاسمی