“کیا کیجیے “
(قتیل شفائی) حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجےگلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکننظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کووہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو […]
“کچھ بھی نہیں “
(اختر شمار) اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیںمطمئن ایسا ھے وہ جیسے کہ ھوا کچھ بھی نہیں اب تو ھاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ھیںاُس کو کھو کر تو میرے پاس رھا کچھ بھی نہیں کل بچھڑنا ھے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھابھی آغازِ محبت ھے گیا کچھ بھی […]
“از پروین شاکر “
پروین شاکر زندگی نے ستا کے، حد کر دیمیں نے بھی مسکرا کے، حد کر دی شعر میں نے کہے تھے تیرے لئےتو نے سب کو سنا کے، حد کر دی میں نے ان دیکھے چاہنا تھا تجھےتو نے خوابوں میں آ کے، حد کر دی میں نے اس سے کہا چلے جاؤاور اس نے […]
طبیعت اداس ہے
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہےمطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنیاے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحالاے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگیرُخ سے نقاب اٹھا کہ […]
اس سے کہنا
اسے کہنا بچھڑنے سے محبت تو نہیں مرتی . .بچھڑ جانا محبت کی صداقت کی علامت ہے . .محبت ایک فطرت ہے ، ہاں فطرت کب بدلتی ہے . .سو ، جب ہم دور ہو جائیں ، نئے رشتوں میں کھو جائیں . .تو یہ مت سوچ لینا تم ، کہ محبت مر گئی ہو […]
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
گئے دِنوں کا سُراغ لے کر ، کِدھر سے آیا ، کِدھر گیا وُہعجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وُہ بَس ایک موتی سی چھب دِکھا کربَس ایک میٹھی سی دُھن سُنا کرسِتارۂ شام بن کے آیا ، برنگِ خُوابِ سحر گیا وُہ خوشی کی رُت ہو کہ غَم کا موسمنظر […]
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کچھ تو میرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ […]
تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئےتری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئیمرے ضبط حال سے روٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیںترے عہد میں […]
“بوجھ “
بظاہر بوجھ ہیں لیکنہمیں سامان میں رکھ لوکسی بھی موڑ پر جا کرسفر میں تھک کے جب پاؤں تمہارے لڑکھڑائیں گےوہاں ہم کام آئیں گے میثم علی آغا
“بہت دیر لگی “
دل سے جاتے نہیں جو لوگ چلے جاتے ہیںدل کو یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگی زندگی ہم تِرے کُند ذہن سے شاگرد جنہیںکچھ سوالات سمجھنے میں بہت دیر لگی کون دشمن ہے کسے دوست سمجھنا ہے یہاںہم کو حالات سمجھنے میں بہت دیر لگی ہم نے اس کھیل کو بس کھیل کی حد […]