درد بڑھتا ہی رہے۔۔۔۔۔۔
درد بڑھتا ھی رھے ایسی دوا دے جاؤ کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلہ دے جاؤ یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے نا امیدی کو تحیّر کی سزا دے جاؤ دشمنی کا کوئی […]
پیام آنے ہیں ۔۔۔۔۔۔
پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے جسے قرار نہ آیا کہیں، بُھلا کے مجھے جُدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ مِلیں فریب دو تو ذرا__ سلسلے بڑھا کے مجھے نشے سے کم تو نہیں_____ یادِ یار کا عالم کہ لے اڑا ھے کوئی دوش پر ھوا کے مجھے میں خود […]
بے بسی۔۔۔۔۔۔۔
“محبت چھوڑ دی میں نے…….!!” محبت کے زمانوں پہ میں لکھتی اب بھی ہوں لیکن میں دلآویز لمحوں کی، پزیرائی نہیں کرتی مجھے اب رقص کرتی تتلیاں، راغب نہیں کرتیں وہ چاھت چھوڑ دی میں نے محبت چھوڑ دی میں نے صحیفوں میں لکھے وہ لفظ تو الہام کی صورت مقفل سے دلوں کو زنگ […]
کسی پہ پورا کھلے۔۔۔۔۔۔
کسی پہ پورا کُھلے تُو تو پھر سوال بنے گلاب دودھ میں گوندھے گئے تو گال بنے تمہاری آنکھوں پہ لکھنے کو جی تو چاہتا ہے حروف سوجھیں تو شاید کوئی خیال بنے ترے لبوں کو ضرورت ہی کیا بہار کی ہے تُو مسکرائی تو پھولوں کے کتنے تھال بنے طلوع ہوتی سحر سے بنی […]
کب تھا۔۔۔۔۔۔
یُوں حوصلہ دِل نے ہارا کب تھا سرطان مِرا سِتارا کب تھا لازم تھا گُزرنا زندگی سے بِن زہر پِئے گُزارا کب تھا کُچھ پَل اُسے اور دیکھ سکتے اشکوں کو مگر گوارا کب تھا ہم خُود بھی جُدائی کا سبب تھے اُس کا ہی قصُور سارا کب تھا اَب اور کے ساتھ ہَے تو […]
وحشتیں بڑھتی گئیں
وحشتیں بڑھتی گئیں___ ہجر کےآزار کے ساتھ اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کےساتھ ہم نے اک عمر بسر کی ھے غمِ یار کے ساتھ میرؔ دو دن نہ جئے___ ہجر کے آزار کے ساتھ اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں طاق پہ عزتِ سادات بھی دستار […]
نہیں جاتیں۔۔۔۔۔۔۔
چاک دامانیاں نہیں جاتیں دل کی نادانیاں نہیں جاتیں بام و در جل اٹھے چراغوں سے گھر کی ویرانیاں نہیں جاتیں اوڑھ لی ہے زمین خود پہ مگر تن کی عریانیاں نہیں جاتیں ہم تو چپ ہیں مگر زمانے کی حشر سامانیاں نہیں جاتیں دیکھ کر آئینے میں عکس اپنا اس کی حیرانیاں نہیں جاتیں […]
نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو خوابوں سی دل نواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ […]
زمین پر پائوں تھے۔۔۔۔۔۔
زمین پر پاؤں تھے ،،، قیام آسمان میں تھا مِری طرح سے وُہ شخص بھی اِمتحان میں تھا یہ روشنی تھی کہ اُسکا چہرہ دھیان میں تھا سِتارہ سا اِک چراغ میرے مَکان میں تھا کہ چاند خود آ کے ایک تارے کا نام پُوچھے ہجوم سیّار گاں ! یہ کِس کے گُمان میں تھا […]
کیا کرتا۔۔۔۔۔۔۔
قدم قدم پہ تھا اک مرحلہ میں کیا کرتا طویل ہوتا گیا فاصلہ میں کیا کرتا غم حیات غم عشق اور غم عقبیٰ اٌلجھ گیا تھا ہر اک سلسلہ میں کیا کرتا تمھارے ساتھ کسے فیصلے کی فرصت تھی تمھارے بعد بھلا فیصلہ میں کیا کرتا بہت سنبھال کے رکھا تھا دل میں راز تیرا […]