دل کی حالت بھی اپنی سنبھلتی رہے
ہم میں تُو جو اگر یوں پگھلتی رہے
ہم نے یہ کب کہا بن جا شعلہ کبھی
اتنا کافی ہے بس تُو سُلگتی رہے
رُک نہ جاۓ کہیں سانس بھی اس لۓ
دھیرے دھیرے تُو مجھ میں مچلتی رہے
ابر بن کے رہے ساتھ وہ ہمسفر
بن کے ساون تُو مجھ پہ برستی رہے
شرط رکھی ہے دل نے دکھڑنے کی یہ
دل کی دھڑکن میں بس تُو تھرکتی رہے
چاند بھی دیکھتا ہے تجھے اُس لمحے
رخ سے تیرے چُنر جب سرکتی رہے
اب تو دل یہ کرے بس وہ آئیں رضا
موسموں کی بھی رُت یوں بدلتی رہے
سید محتشم رضا