دیار دل کی رات میں۔۔۔۔۔۔

دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مِلا نہیں تو کیا ہُوا وہ شکل تو دکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لُطف بھی چلا گیا

جُدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دِیے
تجھے بھی نیند آ گئی ، مجھے بھی صبر آ گیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نِگل گئی اُنہیں کہ آسمان کھا گیا

یہ صُبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی؟ یہ میں کہاں سما گیا

✍️ناصرؔ کاظمی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top