مجھے جلا۔۔۔۔۔

میں دیا ہوں سر شام پھر سے مجھے جلا
اے حسرت مدام پھر سے مجھے جلا

جلا مجھے کہ راکھ ہوں اب تمام حسرتیں
پھر نیا سا لگا الزام پھر سے مجھے جلا

حواس باختہ تو ہوں اس اجنبی نگر میں
اے تنہائیوں کی شام پھر سے مجھے جلا

جلن رہے سینے میں اور آنکھ میں طوفاں
لا پھر عشق کا اک جام پھر سے مجھے جلا

اس ھجر کے سفر میں تنہائیاں تو ھیں
دکھا وصل کا پیغام پھر سے مجھے جلا

دکھلا کہ حور و قصور ہیں میری پڑوسنیں
اور میرا ھے کیا انجام پھر سے مجھے جلا

میٹھی سی خلش رکھ دے مرے جگر میں
کیوں مجھکو ملے آرام پھر سے مجھے جلا

اس دل کو دے تو فقط جنبش کی حرارت
اور سبھی یاس و آلام پھر سے مجھے جلا

قیصر مختار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top