وداع کرتا ہے دل۔۔۔۔۔۔

وداع کرتا ہے دل سطوت رگ جاں کو
خبر کرو مرے خوابوں کے شب سلیماں کو

محیط جاں نہ کوئی ذائقہ نہ سبزۂ شب
تلاش کرتی ہے خوشبو کسی گریباں کو

مجھے یہ فصل خزاں خواب کاٹ لینے دو
کہ پھر نہ نکلے کوئی دوسرا بیاباں کو

لہو کو آنکھ میں رہنے کا زعم تھا ورنہ
ٹپک بھی سکتا تھا بہلا کے دل کے طوفاں کو

مجھے تو غم بھی پنہ زاد ہی لگے اب تو
کہ آ نکلتی ہے حسرت بھی سیر مژگاں کو

کسی عدو کی مروت سے اب بھی تازہ ہیں
وہ زخم خواب کہ جو ڈھونڈتے ہیں پیکاں کو

حساب اس کی محبت کا حرف حرف کروں
جو آ گیا تھا مری تشنگی کے ساماں کو

کشور ناہید

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top