“وے بلھیا اساں مرنا ناہی “
بلھے شاہ کو کافر قراد دے کر اس وقت کے مولویوں نے اسکا جنازہ پڑھانے والے پر بھی فتوی باندھا کہ اسکا نکاح مسلمان عورت سے ختم ہوجائے گا، اور کنوارے کا مسلمان عورت سے شادی ممکن نا ہوگی۔
اس وقت کی مسلمان آبادی نے احتجاج کیا کہ بلھے شاہ کو مسلمانوں کے قبرستان میں نا دفنایا جائے۔
غرض ایک خواجہ سراء نے بلھے شاہ کا جنازہ پڑھایا، بھنگی، مست، کھسرے اس بڑے شاعر کا جنازہ اتھائے قصور شہرسے دو میل باہر جاکر دفن کر آۓ۔
‘سرتے ٹوپی ، تیری نیت کھوٹی،
کی لینا سر ٹوپی ترکے،
تسبیح پھری پر دل نا پھریا،
کی لینا ہتھ تسبیح پھڑکے’
بلھے شاہ کی گمنام قبر کے گرد شہر پھیلتا گیا، آج بابا بلھے شاہ کا قصور شہر کہلاتا ہے۔ وہ مولوی کون تھے جو اسکا جنازہ پڑھانے سے انکاری تھے۔ وہ چوہدری کون تھےجو اسکی لاش کو قبرستان میں دفن ہونے سے روکتے رہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن بلھے شاہ آج بھی اپنی گمنام قبر سے بول رہا ہے، اور بولتا رہے گا کہ
‘بلھیا اسیں مرنا ناہی
گور پیا کوئی ہور’