شاعری
کہانی کا خلاصہ بس۔۔۔۔۔
سنو
اب کوئ خوش فہمی کے آویزے نہیں پہنو
کہ زیور جو بھی ہو
جچنے کی بس اک عمر ہوتی ہے
ہنسی کی پائلیں بجتی ہوئ ہر عمر میں اچھی نہیں لگتیں
سلگتی اوردھیمی مسکراہٹ لب پہ رکھے
قناعت کی ردا اوڑھے
حقیقت کے نگینے سے جڑی انگشتری پہنے
فقط ایک جنبش ِ دست مہرباں سے اگر چاہو
تو وہ لکھتی چلی جاؤ
جسے لکھا نہیں جاتا ہو لکھوایا گیا ہو
جو دل تسخیر کر جائے
کہ اب تو حسن و عشق وہجر کے قصے
بہت بوسیدہ باتیں ہیں
امر ہونے سے پہلے
کہانی ختم ہونے جارہی ہے۔
اسے محفوظ کرلینا غنیمت ہے
کہانی کا خلاصہ بس
اسے کہنا محبت ہے
ڈاکٹر ثروت رضوی