“وہم آدھا مرض ہے، اطمینان آدھی دوا ہے، اور صبر شفا کی پہلی سیڑھی ہے۔”
یہ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص نے رومی فلسفی سے ملاقات کی۔ فلسفی نے اُسے اپنے دسترخوان پر مدعو کیا۔ جب وہ شخص شوربہ پینے لگا تو اس نے پیالے میں سانپ جیسی کوئی چیز دیکھی۔ لیکن شرمندگی کے مارے وہ پیتا رہا۔ گھر جا کر وہ اس بات سے پریشان رہا کہ آخر اس نے کیا پی لیا ہے۔
واقعی، رات کو اس کے پیٹ میں شدید درد شروع ہو گیا، جس نے اُس کی نیند اڑا دی۔ صبح ہوتے ہی وہ فلسفی کے پاس دوا کی تلاش میں پہنچا۔
مگر جب فلسفی نے اسے بتایا کہ شوربے میں کوئی سانپ نہیں تھا، بلکہ وہ تو چھت پر بنی ہوئی تصویر کا عکس تھا، اور یہ بات ثابت کرنے کے لیے اس نے دوبارہ شوربہ نکالا تو اُس میں بھی فوراً سانپ کا عکس نظر آیا، تو وہ حیران رہ گیا۔
یہ حقیقت جان کر اس کے پیٹ کا درد فوراً غائب ہو گیا۔
یعنی سانپ صرف اُس کے ذہن میں موجود تھا۔ وہم میں ایک عجیب طاقت ہوتی ہے، جو انسان کے اندر ایک محسوس ہونے والی حقیقت میں بدل سکتی ہے۔
اسی لیے ابنِ سینا نے کہا تھا:
“وہم آدھا مرض ہے، اطمینان آدھی دوا ہے، اور صبر شفا کی پہلی سیڑھی ہے۔”