اگرچہ ــــ تُجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہُوا
مگر یہ دِل تِری جانب سے صاف بھی نہ ہُوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مُجھکو
وُہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہُوا
عجب تھا جُرمِ مُحبّت کہ جس پہ دِل نے مِرے
سزا بھی پائی نہِیں ،،، اور معاف بھی نہ ہُوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وُہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہُوا
عجب نہِیں ہے ،،، کہ دِل پر جمی مِلی کائی
بہت دِنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہُوا
ہَوائے دہر ! ہمیں کِس لیے بُجھاتی ہے ؟
ہمیں تو تُجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہُوا
پروینؔ شاکر